غاصب اسرائیل نے دفاع کی آڑ میں سال بھر غزہ میں نسل کشی کا بازار گرم رکھا اور غزہ کو بچوں کا قبرستان بناتے ہوئے 14 ہزار معصوموں کو شہید کیا۔
اسرائیل نے دفاع کے نام پر گزشتہ سال 7 اکتوبر سے غزہ پر بربریت کا سلسلہ شروع کیا جو بغیر کسی تعطل کے اب تک جاری ہے۔ تاریخ کی اس وحشیانہ بمباری میں غزہ کے بچوں کی کلکاریاں چیخ وپکار میں تبدیل ہوگئیں۔
اس ایک سال کے دوران کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا جب اسرائیلی فورسز نے بچوں کو نشانہ نہ بنایا ہو۔ صہیونی ریاست نے غزہ پر ٹنوں بارود برسا کر اسے ملبے کا ڈھیر اور بچوں کا قبرستان بنا دیا۔
اس ظلم وبربریت کی المناک داستان میں کسی بچے کے والدین نہیں رہے تو کسی کے بھائی بہن بچھڑ گئے۔ کسی نے گھر کھو دیا تو کسی کے دوست نہ رہے۔ سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت میں 17 ہزار بچے ماں یا باپ یا پھردونوں سے محروم ہو چکےہیں۔۔
صیہونیوں نے غزہ کے بچوں سے والدین کے سائے کے ساتھ ان کا مستقبل بھی چھین لیا۔ بمباری کرتے ہوئے نہ اسکول چھوڑے اور نہ ہی کھیل کےمیدان۔ سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔
اسرائیلی بربریت سے غزہ میں ایسے غذائی بحران نے جنم لیا کہ بچے دودھ اور پانی تک کو ترس گئے۔ جو بچ گئے ہیں وہ آج قطاروں میں لگ کر کھانا لینے اور پانی بھرنے پر مجبور ہیں۔
صہیونی ریاست کی بمباری کے دوران سال بھر میں 44 ہزار بچے پیدا ہوئے۔ جن کی زندگیاں بہتر نگہداشت نہ ملنے کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔
یونیسف کے مطابق جنگ سے بچوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بچوں کو بمباری اور بھوک کے خوف نے جکڑ رکھا ہے۔ ڈر کی وجہ سے بچے نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی سوتے ہیں۔
واضح ہے کہ ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں محتاط اندازے کے مطابق 42 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ زخمی اور لاپتہ افراد کی تعداد اسے کئی گنا زیادہ ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں